Success Story of Dr Musadik Malik
اس کا نام شمیم تھا،عرفیت کے ساتھ غالباََ اسے چھیمو بلایا جاتا تھا۔ وہ کیپری سینما گلبرگ میں بکنگ کلرک تھا۔ یہ 1970 کی دہائ تھی۔ بھٹو کا دور تھا۔ ملک میں فی کس آمدنی کم تھی لیکن لوگ نسبتاً خوشحال تھے۔ لاہور اچھرہ سے پہلے ہی ختم ہو جاتا تھا۔ اسکے بعد ملتان روڈ آتا تھا جس پر ایورنیو سٹوڈیو،شاہنور سٹوڈیو،باری سٹوڈیو اور دیگر سٹوڈیوز آتےتھے۔فلم انڈسٹری اور فلم سٹار عروج پر تھے۔ سینماؤں میں فلم لگتی تھی تو کھڑکی توڑ رش ہوتا تھا۔ ایسے میں کسی مقبول فلم کے لگنے پہ ٹکٹ بکنگ کلرک بے تاج بادشاہ ہوتا تھا۔ وہ ٹکٹ بلیک کرنے سے لے کر فلم کے ڈیبیو لگنے تک سینیما میں راج کرتا تھا۔ لاہور شہر میں فیشن ایبل زندہ دلان بیل باٹم پہن کے بالوں کی لمبی گت رکھ کے گلبرگ کی کوٹھیوں میں شب بیداریاں کرتے تھے۔ محفلوں میں تیز میوزک کے ساتھ ہل ہل کے ڈانس کرنے سے لے کر تاش کے پتوں پہ جوئے کی محفلیں سجتی تھیں۔ کوکا کولا پینے والے کو شریف آدمی سمجھا جاتا تھا۔
ایسی ہی ایک محفل میں چھیمو جو ٹکٹ بلیک کر کے خاصی رقم کما چکا تھا
*،فلمسٹار رنگیلا* کے ساتھ فلاش کی بازی لگائے بیٹھا تھا۔ جوں جوں رات گذرتی جا رہی تھی رنگیلا اس سے ہارتا چلا جا رہا تھا۔ *فائنل راؤنڈ میں رنگیلا چھیمو سے گلبرگ میں موجود چار کنال کی کوٹھی ہار چکا تھا*۔ یہ کوٹھی چھیمو کے تصرف میں بہت عرصہ رہی شنید ہے یہیں اسکے بچے پلے بڑھے،پڑھے لکھے اور جوان ہوئے۔ انہی میں اس کا ایک بچہ چھوٹی آنکھوں والا تھا،جو دکھنے میں ڈھیلا ڈھالا اور شریف تھا، لڑائ جھگڑے سے کوسوں دور بھاگتا تھا،لیکن ہمہ وقت اچھے وقت اور اچھے موقع کی تلاش میں رہتا تھا۔پڑھائ میں ایوریج تھا لیکن بلا کا چرب زبان تھا۔ اسکی آنکھوں میں ہمہ وقت شرارت اود ذہانت کا امتزاج رہتا تھا۔چھیمو اسکے مستقبل کے بارے میں پریشان رہتا تھا، لیکن وہ اپنے ابا جی کو ہمیشہ تسلی دیتا تھا اور کہتا تھا میں آپ کے سب بیٹوں سے زیادہ کماؤں گا ۔
اس کہانی کو یہیں چھوڑتے ہیں۔ 70 کی دہائی میں بھی ایسے ہی تھا اور اسکے بعد کی دہائیوں میں بھی،لاہور شہر کی دیواروں پہ *وال چاکنگ ہوتی تھی جس میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے اشتہار حکیموں اور عطائیوں کی طرف سے مردانہ کمزوری والے اشتہار تھے*۔ شاید یہ کاروبار اور یہ اشتہار بازی برصغیر میں صدیوں سے رائج تھی۔ مغلیہ دور میں بھی بادشاہوں کے دربار میں خلعت پانے والے یا تو شعراء ہوتے تھے یا حاذق طبیب۔ اکبر بادشاہ نے ایک اول جلول سے حکیم کو خلعت فاخرہ عطا کی،اور شاہی طبیب کے رتبے سے نوازا کیوں کہ اس نے اکبر کی ایام پیری میں کھوئی ہوئ طاقت کو ایک خصوصی نسخے سے بحال کردیا تھا۔تاریخ میں رقم ہے ایسے اطباء کو درباری سیاست میں بھی خاص مقام حاصل ہو جاتا تھا اور کئی مرتبہ وہ تخت الٹ کر کسی شہزادے کو راج نیتی حاصل کرنے کی سازش میں بھی معاون ثابت ہوتے تھے۔
اب آتے ہیں 1999 کے مشرف کے انقلاب کی طرف، شریف خاندان جلا وطن ہو چکا ہے، مشرف اپنے پورے جاہ و جلال اور آب و تاب کے ساتھ بلا شرکت غیرے حکمرانی کر رہا تھا۔ تین سال کے عرصے میں اس نے سیاستدانوں اور ٹیکنو کریٹس کی ایک ٹیم تشکیل دے دی تھی۔ حیرت انگیز طور پر وہ خصوصی بناوٹ والی شرارتی آنکھوں کا بچہ موقع پا کر مشرف کے دربار کا حصہ بن چکا تھا۔ اس وقت وہ 35 سال سے زائد کی عمر کا تھا۔ اس نے بہت سرعت سے دربار میں موجود *سیاستدانوں،بیوروکریٹس اور صحافیوں سے راہ و رسم پیدا کیے۔ پارلیمنٹ لاجز میں مرد و خواتین پارلیمنٹیرینز کے بیڈ رومز تک وہ بلا روک ٹوک پہنچ جاتا تھا*۔ حتیٰ کے کئی موقعوں پہ مشرف اس کا غیر ملکی وفود سے خود تعارف کراتا تھا۔ بظاہر وہ وہاں این سی ایچ ڈی ادارے میں تھا جس کا کام یوتھ ایمپاورمنٹ اور پالیسی میکنگ تھا
پھر 2008 میں چیف جسٹس افتخار چودھری کے طویل ایپی سوڈ کے بعد مشرف کے دور کا اختتام ہوتا ہے۔ مشرف اقتدار زرداری کے حوالے کرتے ہوئے اس نوجوان کی خصوصی سفارش کرتا ہے اور اسے *پاور ایکسپرٹ* کے نام سے انٹروڈیوس کرواتا ہے۔ پاور ایکسپرٹ کے لقب کی وجہ سے زرداری اس کو مشیر توانائی لگاتا ہے ۔ وہ بجلی گھروں کی تنصیب سے لے کر لوڈ شیڈنگ جیسے گھمبیر مسائل کو حل کرنے کی تکنیکی باریکیوں کو ماہرین کی چاپلوسی کر کے تیزی سے سیکھتا ہے اور ٹی وی ٹاک شوز میں حکومتی دفاع کرتا ہے۔ واٹر اینڈ پاور کے کار پردازوں کو اور خود زرداری کو تھوڑے عرصے بعد معلوم پڑتا ہے کہ اس نوجوان کی اصل صلاحیت بطور فارماسسٹ کے ہیومین پاور کی تھی،نہ کہ الیکٹرک پاور کی۔
کہانی یہاں تک پڑھ کر آپ جان چکے ہوں گےکہ بات )
*ڈاکٹر مصدق ملک* کی ہو رہی ہے جس کی بنیادی کوالیفیکیشن پنجاب یونیورسٹی سے فارمیسی کی ڈگری اور پھر یونیورسٹی آف ایلی نائے امریکہ سے ہیلتھ کئیر ایڈمنسٹریشن اور ہیلتھ پالیسی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کی ہے۔ اس چالاک نوجوان نے ہیلتھ کیئر اور فارمیسی میں مہارت کے بعد میر ہزار خان کھوسو کی 2013 میں بننے والی نگران حکومت میں پانی وبجلی کے وفاقی وزیر کا منصب سنبھال کے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔
ڈاکٹر مصدق ملک عرف ڈاکٹر ایم ایم کا پاور کاریڈوز میں رسائی کا سفر نواز شریف کے دوبارہ 2013 میں حکومت میں آنے کے بعد بھی نہ رکا اور موصوف کو حیرت انگیز طور پر بجلی و توانائی کے مشیر کا عہدہ دیا گیا۔اس دوران موصوف نے انتہائی مہارت سے مریم نواز تک رسائ حاصل اور اپنی 'خفیہ صلاحیتوں' سے انکی بھر پور توجہ حاصل کی۔ ایک دور ایسا آیا کہ ڈاکٹر ایم ایم کو مستقل حکومتی ترجمان بنا دیا گیا۔ تب سے اب تک موصوف مسلسل کامیابیوں کےجھنڈے گاڑ رہے ہیں۔مریم نواز جہاں کا بھی سفر کرتی ہیں یہ انکی آنکھوں کا تارہ بن کے انکے ہمراہ ہوتے ہیں۔
واقفان حال یہ بھی بتاتے ہیں کہ ہر دور میں پاور کاریڈوز میں ڈاکٹر ایم ایم کی رسائی کا سبب انکی بلا کی ذہانت اور چرب زبانی تو ہے ہی لیکن ان کا اصل کارنامہ انکی 'ہیلتھ کئیر 'کی وہ خفیہ صلاحیت ہے جسکی بدولت انہوں نے مرد و زن دونوں کے لیے ایسا علیحدہ علیحدہ نسخہ کیمیا بنایا ہے جس کی چند گرام کی قیمت جو وہ خود پانچ ہزار روپے سے زائد بتاتے ہیں اور وہ جادو کی گولی جب وہ اپنے انتہائی اہم اور قیمتی ہدف پہ چلاتے ہیں تو پھر شکار کے بچ نکلنے کا چانس زیرو فیصد ہوتا ہے۔واقفان حال یہ بتاتے ہیں کہ *وہ نسخہ کیمیا استعمال کرنے والا یا والی عیش و نشاط کی نئ منزلوں سے روشناس ہوتا ہے اور پھر سرگوشیوں میں اپنے کسی رازدان کو اسکے اثرات بتاتا ہے اور یوں نتیجتہ" ڈاکٹر صاحب کی مارکیٹ اور ڈیمانڈ بڑھتی چلی جاتی ہے*
۔ مستند ذرائع کے مطابق سعودی عرب اومان اور بحرین میں ہیلتھ پالیسی سیکٹر میں سروس کے دوران سعودی حکمرانوں ںے ڈاکٹر صاحب کی ان خفیہ صلاحیتوں' کو پہلے اجاگر کیا اور پھر ان سے استفادہ حاصل کیا۔ انھی رائل حکمرانوں نے ان کو سند بخشتے ہوئے واپس پاکستان ارسال کیا تا کہ وطن کی خدمت کر سکیں اور مٹی کا جو قرض تھا وہ چکا سکیں۔
یہ وطن،یہ خطہ یہ نسلیں انہی برصغیر کی مغلیہ سلطنتوں کا ہی تو تسلسل ہیں۔ جہاں کا حاذق حکیم بادشاہوں کو طاقت کی گولی کھلا کر درباری سیاست تک رسائی حاصل کر لیتا تھا اور بوقت ضرورت کسی نئے ابن الوقت شہزادے کے لیے تختہ الٹنے کی معاونت بھی کر لیتا تھا۔ ایسے ہی *حکیموں کی نسلیں ہم پہ راج کر رہی ہیں۔یہ زوال کا عروج ہے ۔ہماری تقدیر کیسے بدلے گی۔ ایسے حکماء جو طب کی ڈگری لیتے ہیں لیکن مہندس کے منصب پہ مامور ہو جاتے ہیں اور غضب خدا کا ہر دور حکومت میں حاکموں کی آنکھوں کا تارہ بن جاتے ہیں۔ان حکماء پہ زوال نہیں آتا لیکن ملک ترقی معکوس کا سفر جاری رکھتا ہے*
۔ شائد ہم برصغیر کے لوگ یہی مقدر لکھوا کے لائے ہیں اور ہماری آنے والی نسلیں بھی یہی مقدر دیکھیں گی۔ ڈاکٹر ایم ایم نے اپنے مرحوم والد سے کیا گیا وعدہ تو ایفا کر دیا لیکن ملک کی انڈسٹری کو لوڈ شیڈنگ کی خرافات سے نکالتے نکالتے ایسی دلدل میں پھنسا دیا کہ بھاری ٹیرف کی بنیاد پہ تمام انڈسٹریلسٹ ملائشیا ،بنگلہ دیش اور دیگر ممالک پدھار چکے ہیں اور *ڈاکٹر ایم ایم اپنی دراز زبان کے ساتھ ابھی بھی اپنے کارناموں کو ٹی وی ٹاک شوز اور جلسہ گاہوں میں ڈیفینڈ کر رہے ہیں*۔
On Wed, Sep 15, 2021 at 5:45 PM Ibrahim Mughal <mughal.afp@gmail.com> wrote: